دل مرا سال ، وہی گزرے زمانے چاہے |
پھر وہی یار ، وہی کھیل پرانے چاہے |
مانگے دن ، رات رتیں وہ گئے موسم سارے |
نیند ، وہ خواب مرے دیکھے سہانے چاہے |
سانس جن سے رکی جاتی تھی مرے سینے میں |
آج کہنے کو وہی بات ، فسانے چاہے |
بیتے ماضی کے سوا یاد نہیں کچھ دل کو |
اک محبت کا نگر ، بھولے ٹھکانے چاہے |
سب فراموش سا کر کے لگے سب زخموں کو |
رنگ الفت کا ، جگر اپنے بے گانے چاہے |
میری خاموش نگاہوں کی گواہی بن کے |
بے گناہی کو مری دیکھ بہانے چاہے |
تم ذرا دور رکھو مجھ سے مرے ناصح کو |
من بہکنے کو مرا شب ، وہی شانے چاہے |
آنکھ سے آنکھ ملے کوچہ ء جاں میں شاہد |
رند میکش کہیں ساقی وہ مے خانے چاہے |
معلومات