آگئے ہیں جو یہاں اب نہیں جانے والے |
میکدے سے نہیں آئیں گے اٹھانے والے |
تشنہ لب پیاس بجھائیں گے تو جائیں گے کہیں |
چشمۂ فیض پہ آئے ہیں جو آنے والے |
وقت کی بات ہے پکڑے گی مکافاتِ عمل |
کب سکوں پائیں ، فقیروں کو ستانے والے |
روح بیتاب ہے ، دل تیرے بنا ہے بےکل |
ختم ہوتے ہیں کہاں لمحے رُلانے والے |
اُٹھ کے اب ہم تری محفل سے کہاں جائیں گے |
یونہی کہتے ہیں یہ بے پر کی اُڑانے والے |
ہم نے دھوکہ نہیں کھایا تجھے دیکھا جب سے |
گو ملے ہم کو بہت خواب دکھانے والے |
دب نہیں سکتی ہے طارق کبھی حق کی آواز |
ہوں گے خاموش یہی شور مچانے والے |
معلومات