میں جانتا ہوں سفر مرا تو یہ مختصر ہے |
طویل جتنا سفر ہے جھنجھٹ طویل تر ہے |
زمیں کی گردش پہ منحصر رات دن ہمارے |
کہیں پہ سورج اگر ہو رُخصت کہیں سحر ہے |
شجر کے پھل روشنی میں سورج کی پک رہے ہیں |
ہے ذائقے میں الگ ہر اک پھل جو خشک و تر ہے |
بنا سکا کب بشر کوئی کیڑے جیسا ریشم |
کہاں کسی کی عقاب جیسی ہوئی نظر ہے |
زمیں نے اپنی طرف ہے کھینچا ہر ایک ذرّہ |
وہی زمیں جو کہیں پہ بحر اور کہیں پہ بر ہے |
کبھی کبھی چاہتا ہے دل یہ تجھے میں دیکھوں |
مگر تجھے دیکھنے سے قاصر مری نظر ہے |
گلوں کے لب پر تری کہانی ہے ہر چمن میں |
تری مہک ہے جہاں صبا کا ہوا گزر ہے |
ہے سیج پھولوں کی گو سجے ہیں حسین رستے |
جو راستہ تیرے گھر کو جاتا ہے وہ دِگر ہے |
نہیں کوئی اور آرزو دل میں سر اٹھاتی |
کبھی اگر تجھ سے گفتگو ہو تو کیا ضرر ہے |
جہاں مقابل ہوئے خرد پر تھا عشق بھاری |
جنوں ہی بہتر ہے گر خرد میں کوئی کسر ہے |
ملوں گا میں اس نے خود ہی وعدہ کیا ہے طارِق |
کہاں خدا ہے کہاں پہ عاجز یہ اک بشر ہے |
معلومات