کہاں گیا وہ سکوں جو دلوں میں بستا تھا
یہ اب جو درد ہے دل میں، یہ بھی چھپا سا تھا
وہ شخص، جس کی انا بھی خودی پہ غالب تھی
وہ کون تھا، جو سجدے میں بھی خدا سا تھا
عجب تھا یہ کہ مسافر بھی، رہگزر بھی تھا
خود اپنے آپ میں گویا کوئی سزا سا تھا
ہزار خواہشیں پوری ہوئیں، مگر اے دوست
وہ لمحہ آخری تھا جو دلوں پہ نقش سا تھا
خفا تھا چاند بھی جیسے کوئی گواہی دے
کہ اس کا روشنی سے کوئی واسطہ سا تھا
ہزار راستے تقدیر نے دکھائے پر
جو بن کے آیا تھا رہبر، وہ بے وفا سا تھا
ہوا کے دوش پہ بھیجا تھا میں نے اس کو پیام
جو لوٹ کر نہیں آیا، وہ اک دعا سا تھا
ہزار بار بھی دیکھا تھا آئینہ اس نے
مگر وہ اپنی ہی صورت میں بے نشاں سا تھا
کسی کو حال سناتا تو بات بن جاتی
مگر سکوت کا عالم بھی اک گلہ سا تھا

0
23