کہاں گیا وہ سکوں جو دلوں میں بستا تھا |
یہ اب جو درد ہے دل میں، یہ بھی چھپا سا تھا |
وہ شخص، جس کی انا بھی خودی پہ غالب تھی |
وہ کون تھا، جو سجدے میں بھی خدا سا تھا |
عجب تھا یہ کہ مسافر بھی، رہگزر بھی تھا |
خود اپنے آپ میں گویا کوئی سزا سا تھا |
ہزار خواہشیں پوری ہوئیں، مگر اے دوست |
وہ لمحہ آخری تھا جو دلوں پہ نقش سا تھا |
خفا تھا چاند بھی جیسے کوئی گواہی دے |
کہ اس کا روشنی سے کوئی واسطہ سا تھا |
ہزار راستے تقدیر نے دکھائے پر |
جو بن کے آیا تھا رہبر، وہ بے وفا سا تھا |
ہوا کے دوش پہ بھیجا تھا میں نے اس کو پیام |
جو لوٹ کر نہیں آیا، وہ اک دعا سا تھا |
ہزار بار بھی دیکھا تھا آئینہ اس نے |
مگر وہ اپنی ہی صورت میں بے نشاں سا تھا |
کسی کو حال سناتا تو بات بن جاتی |
مگر سکوت کا عالم بھی اک گلہ سا تھا |
معلومات