نہ آیا آج وہ ، محفل نے جس کی حسرت کی |
کہ تاب لاتی نہیں بزم جس کی صورت کی |
ہوا ہوں اب کہ پریشان اس کی فرقت سے |
مگر مجال ہے ملنے کی کچھ بھی جرأت کی |
ہوں دربدر میں اسیروں سی زندگی اپنی |
جفا یہ کیسی بلا کی ہے اس نزاکت کی |
مگر نصیبِ محبت میں یہ لکھا ہے حسیں |
ہوا حقیر زمانے میں جس نے چاہت کی |
نہ پوچھ لینا کبھی حال خستہ حالی کا |
کہ ایک عرصہ ہوا میں نے بھی ندامت کی |
ہوا ہوں جرمِ محبت میں، میں اسیرِ جنوں |
گرانی جان پہ آئی ہے اک حمایت کی |
یہ کہ رہا تھا کوئی بزم میں رفیقوں سے |
خطا یہی ہے مری بزم میں جو شرکت کی |
کوئی وطن سے محبت کی بات کیسے کرے |
وبا جو ملک میں پھیلی ہے آج نفرت کی |
امیرِ شہر نے یہ کہہ کہ بیڑیاں ڈالی |
سزا ملی ہے تجھے قوم سے محبت کی |
اسی کے چرچے ہیں زوروں پہ آج محفل میں |
نبھاۓ جس نے روایات و ریت الفت کی |
وہ پا گئے تھے محبت میں سب سے اعلیٰ مقام |
مثال کیا دوں مسلماں کی اس صداقت کی |
اے دل کہ بزم سے کہدے مری نواۓ شوق |
ستم رسیدہ کو حاجت ہے اب محبت کی |
خلاف ہوتا ہے گر ہو مجھے نہیں پروا |
کہ آج میں نے روایات سے بغاوت کی |
کہ آشنا ہی بھری بزم میں کیا رسوا |
بتا کے رازِ جنوں ہاۓ کیا حماقت کی |
میں کیوں گیا تھا وہاں شوقِ رند لیے ساقی |
ہزار بار مجھے دل نے یہ ملامت کی |
اسے بھی دیکھو ذرا وعظ بھی کرو واعظ |
کہ خانقاہ کے پسر کو طلب ہے شہرت کی |
یوں سر جھکائے جو بیٹھے ہیں عینِ محفل میں |
ادا یہ کیسی نرالی ہے ہاۓ حضرت کی |
اے شاہیؔ بچنا سیاست کے پیچ و خم سے سدا |
بلا کہ گوشۂ خلوت میں یہ نصیحت کی |
یہ کیسی وعظ و نصیحت ہے اب کہ أہلِ جنوں |
حضور آپ نے کیسی مگر شرارت کی |
مراقبے میں جھکی گردنیں ہیں سب کی یہاں |
نہیں ہے آج کسی کو خبر حقیقت کی |
وہ کچھ جواں تھے شریعت کے پاسباں تھے کبھی |
بہت زمانہ ہوا سن کے بات غیرت کی |
جو قوم کے تھے محافظ وہ آج سوۓ ہیں |
یہ اہلِ دل کے لئے بات ہے نا حیرت کی |
مگر جو دل ہے مرے پاس کہاں سے لاۓ کوئی |
کرے جو بات سرِ عام یوں جسارت کی |
کہ عصرِ نو میں مسلماں کی ہے ضرورت یہ |
ہرایک دل کو تمنا ہو اب قیادت کی |
معلومات