اپنی گم گشتہ فتوحات میں کھویا ہوں میں
اپنے بیتے ہوئے لمحات میں کھویا ہوں میں
ڈھونڈتا ہوں میں تجھے تیرے ٹھکانے پہ ہی اب
بس اسی واسطے ہی ذات میں کھویا ہوں میں
ترے لہجے کی فسوں کاری کا عالم یہ ہے
کہیں دن میں تو کہیں رات میں کھویا ہوں میں
وہ جو اک بات مجھے جاتے ہوئے تو نے کہی
آج تک صرف اسی بات میں کھویا ہوں میں
میں نے خود کو کبھی شاعر نہیں سمجھا سیفی
یہ الگ بات تری بات میں کھویا ہوں میں

0
2
307
سیف صاحب آپکی یہ غزل اچھی ہے مرے نزدیک اور اس میں کوئ عیوبِ سخن بھی مجھے نظر نہیں آۓ
البتہ کچھ چھوٹی چھوٹی باتوں سے یہ اور بہتر ہو سکتی ہے

ڈھونڈتا ہوں میں تجھے تیرے ٹھکانے پہ ہی اب
بس اسی واسطے ہی ذات میں کھویا ہوں میں

یہاں اگر کسی طرح آپ ذات کی وضاحت کر سکیں کہ اپنی ذات تو ابہام ختم ہو جائیگا اور شعر اور خوبصورت ہو جائگا۔
ویسے آپکا خیال مجھے پسند آیا۔


کہیں دن میں تو کہیں رات میں کھویا ہوں میں
یہاں کہیں کہ بجاے کبھی مرے خیال میں زیادہ پر اثر ہو گا

یہ الگ بات تری بات میں کھویا ہوں میں
یہاں تری بات کہ بجاے تری ذات میں کھونا کہیں تو پہلے مصرعے کہ لفظ شاعر سے زیادہ مطابقت ہو گی

اور آخری بات جو خالصتا زاتی پسند نا پسند کی ہے وہ یہ کہ آخری رکن فعلن کہ بجاے فعِلن کریں تو اس بحر میں اور روانی آجاتی ہے - یعنی اس طرح

اپنی گم گشتہ فتوحات میں کھویا ہوا میں
اپنے بیتے ہوئے لمحات میں کھویا ہوا میں
ڈھونڈتا ہوں میں تجھے تیرے ٹھکانے پہ ہی اب
بس اسی واسطے ہی ذات میں کھویا ہوا میں
ترے لہجے کی فسوں کاری کا عالم یہ ہے
کبھی دن میں تو کبھی رات میں کھویا ہوا میں
وہ جو اک بات مجھے جاتے ہوئے تو نے کہی
آج تک صرف اسی بات میں کھویا ہوا میں
میں نے خود کو کبھی شاعر نہیں سمجھا سیفی
یہ الگ بات تری زات میں کھویا ہوا میں



0
بہت نوازش حضور۔ سلامت رہیں

0