| خدا کے رستے پہ چلنے والے | 
| تلاش حق میں نکلنے والے | 
| کہیں تو رستے میں کھو گیا ہے | 
| کہیں تو تھک کر ہی سو گیا ہے | 
| اگر تو سوتے ذہن کو تیرے | 
| گھڑی کی ٹک ٹک جگا نہ پائے | 
| تو اپنے سینے پہ ہاتھ رکھ کر | 
| تو اپنے دل کی صدا کو سن لے | 
| جو کہہ رہی ہے کہ جاگ بندے | 
| زمانہ آگے نکل گیا ہے | 
| کہیں یہ لے کر ترا سہارہ | 
| کہیں تجھے لوٹ کر یہ دنیا | 
| مقام اپنا بنا رہی ہے | 
| تجھے یہ نیچا دکھا رہی ہے | 
| اٹھو کہ اب وقت کی کمی ہے | 
| سمے کا گھوڑا نہیں رکے گا | 
| یہ آ رہا ہے تری طرف پھر | 
| کہیں تجھے روند ہی نہ ڈالے | 
| کہیں یہ دھڑکن ہی رک نہ جائے | 
| تو اس کی رہ سے ہٹا کے خود کو | 
| سوار اس کی کمر پہ ہو جا | 
| جہاں میں اپنی بقا کی خاطر | 
| تلاش کر تو مقام اپنا | 
| مگر کسی سنگ میل کو اب | 
| سمجھ کے منزل ٹھہر نہ جانا | 
| سفر ہے لمبا ہے دور منزل | 
| سفر ستاروں کے ساتھ کر تو | 
| فلک پہ منزل تلاش کر تو | 
| ملے گی اس کو جو نے رکے گا | 
| سفر وسیلہ ظفر کا ہوگا | 
 
    
معلومات