رستے میں ہاتھ چھوڑ کے دنیا سے ڈر گیا
اک شخص میرے واسطے زندہ ہی مر گیا
جن شدتوں سے وہ مرے سر پر سوار تھا
وہ جلد باز دل سے بھی جلدی اتر گیا
مانگا تھا زندگی سے جو کچھ روز کے لیے
مرهم نما وہ شخص بھی جانے کدھر گیا
اک روز یونہی ہو گیا وعدوں سے سامنا
خاموش میں بھی ہو گئی وہ بھی مکر گیا
ہم سوچتے ہی رہ گئے اچھا بھی آئے گا
لگتا ہے وقت پھر سے کوئی ہاتھ کر گیا
لمبی رفاقتوں میں یہی تو عذاب ہے
آنکھیں بھی تھکی تھکی سی تو دل ہے بھر گیا

0
128