مجھے جب سے مُحبّت ہو گئی ہے
بدن سے جان رخصت ہو گئی ہے
جھُکایا سر کو دِل کی آرزو پر
ارے پاگل عبادت ہو گئی ہے
کبھی گر مِل گئے تو طعنے شکوے
عجب ان کی طبیعت ہو گئی ہے
چلی ہے ایسی رسمِ بادہ نوشی
جنابِ شَیخ کو لَت ہو گئی ہے
بتائی عمر ساری اُس گلی میں
ابھی عُمروں کی عادت ہو گئی ہے
کہاں رکھتا ہوں پڑتے ہیں کہاں پر
عجب پاؤں کی حالت ہو گئی ہے
مسائل میں گھِری ہے قَوم ساری
غریبی کو کفالت ہو گئی ہے
نَفَس بِکھرے ہوئے ہیں چار جانب
بنی آدم کی رِحلت ہو گئی ہے
دیارِ غَیر میں گزرا زمانہ
اُمید ایسا کہ عادت ہو گئی ہے

63