سبق جو فطرتاً توحید کا سکھا یا ہے |
تو کائنات کو بھی رہنما بنایا ہے |
رہے نہ کوئی بھی امکان تیری دوئی کا |
نہ تیرا آئینے میں عکس ہے نہ سایہ ہے |
کہاں تھی وسعتِ دل کے سوا جگہ تیری |
اسی لئے ترا جلوہ یہاں بسایا ہے |
جو تیرا قرب میسّر ہے آدمی کو بتا |
کہیں جہاں میں کسی اور نے بھی پایا ہے |
کبھی نظر تری رحمت کی پڑ ہی جائے گی |
یہ تیرا بندہ ترے آستاں پہ آیا ہے |
نہیں ہے دولتِ دنیا سے کچھ غرض مجھ کو |
کہ تیری یاد مری عمر بھر کی مایا ہے |
وصال ہو ترا راضی تُو مجھ سے ہو جائے |
مجھے گناہوں سے اس شوق نے بچایا ہے |
ترے حضور میں طارق کی حاضری تو ہو |
یہ تیرے سامنے سجدوں میں سر جھکایا ہے |
معلومات