رہے گا درد جُوں کا تُوں کب تک |
چشمِ تر سے بہے گا خُوں کب تک |
چشمِ منظر ہو پُرفُسوں کب تک |
کربِ بے ماجرا سہوں کب تک |
دشت میں ہوں اگر تو ہوں کب تک |
رہے گا آخرش جنوں کب تک |
خود کو میں کوستا رہوں کب تک |
زندگی ہوگی بے سکوں کب تک |
بے سکونی میں خوش رہوں کب تک |
میں اداکاریاں کروں کب تک |
ہجر نے مجھ کو بخشا سوزِ دروں |
اور سوزِ دروں بھی یوں کب تک |
کیوں ہی تو ہر سوال کا ہے جواب |
ہو زباں پر یہ لفظِ کیوں کب تک |
رہتا ہوں سوزِ زیست میں ہر دم |
اور یوں بھی تو رہ سَکوں کب تک |
تُو سنی ان سنی کرے ہر دم |
اور میں آواز تجھ کو دوں کب تک |
شہر کے مسخروں سے جانِ من |
طعن و تشبیع میں سہوں کب تک |
وقت سے پوچھتا ہوں ایک ہی بات |
سدھرے گی حالتِ زبوں کب تک |
شل ہیں پاؤں شکستہ پائی ہے |
دیکھتے ہیں کہ چل سکوں کب تک |
تلخئِ شوق و آرزو میں زیبؔ |
اشکِ ریزاں ہوں سرنگوں کب تک |
معلومات