غم ہجراں میں دل لگتا نہیں ہے
بجائے سہنے کے چارہ نہیں ہے
زبان حال پر یارا نہیں ہے
ستم محبوب کو پروا نہیں ہے
محبت صرف دل میں ہے پنپتی
یہ پودا عقل میں اگتا نہیں ہے
کبھی دو بول کافی ہو وفا کے
یہاں سب سے بڑا پیسہ نہیں ہے
ہوا ہو وقف اوروں کے لئے گر
"وہ تنہا ہو کے بھی تنہا نہیں ہے"
پہل میں ہچکچاہٹ سے ہے واضح
سمجھ کے بات کو سمجھا نہیں ہے
ہزاروں زخم ناصؔر ہم نے کھائیں
مگر دنیا کو پہچانا نہیں ہے

0
27