آ تجھ کو میں بتاؤں اے قلبِ عاشقانہ |
اک جاں گسل حقیقت اندازِ شاعرانہ |
کیوں کر ہو تجھ میں پیدا افکارِ قائدانہ |
اقبالؔ سے گریزاں ، غالبؔ کا ہو دیوانہ |
الزامِ طرفداری مجھ پر تو ہوں گے لیکن |
پوچھو کسی خرد سے ہے کون جاودانہ |
ہوگی یہی حقیقت تجھ پر بھی آشکارا |
غالبؔ ہے ایک لحظہ ، اقبالؔ ہے زمانہ |
جس قوم کے جوانوں کو مرضِ عاشقی ہو |
اس قوم کی حقیقت بن جاتی ہے فسانہ |
گرویدہ جسم و جاں کے زلفوں کے ہیں یہ شیدا |
ہوں گے کہاں سے پیدا جذباتِ خالدانہ |
بھٹکے ہوئے مسافر کو کون رہ دکھاۓ |
ہے رہبروں کی منزل اب کے جو کوۓ جانہ |
جو تھے جواں جفاکش آسائشوں میں گم ہیں |
آتا ہے غازیوں کو ناز و ادا زنانہ |
صحرا نورد جب سے محمل میں جا بسے ہیں |
خاشاک و خس ہیں در پے گلشن بنا نشانہ |
محرومِ لطفِ میداں سوزِ جگر سے خالی |
نہ دل میں روشنی ہے نہ آنکھ ساحرانہ |
افکار بد سے بد تر ہوتے ہیں فکر سے جب |
کیا طرزِ مشرقانہ، کیا رنگِ مغربانہ |
اے نوجوان شاعر ملت پہ جاں فدا کر |
سو خوبیاں ہوں تجھ میں اوصاف فاتحانہ |
اس دور میں ہو جینا تو سیکھ رمزِ ہستی |
گفتارِ آمرانہ اندازِ حاکمانہ |
دیتا ہے درس مجھ کو عہدِ نوی کے بت گر |
ملت سے دل لگی ہو بے ضبط والہانہ |
شاہؔی تو وہ جواں ہے تخلیق میں ہے جس کی |
دو چار خوۓ ناداں دو چار عاقلانہ |
معلومات