آ تجھ کو میں بتاؤں اے قلبِ عاشقانہ
اک جاں گسل حقیقت اندازِ شاعرانہ
کیوں کر ہو تجھ میں پیدا افکارِ قائدانہ
اقبالؔ سے گریزاں ، غالبؔ کا ہو دیوانہ
الزامِ طرفداری مجھ پر تو ہوں گے لیکن
پوچھو کسی خرد سے ہے کون جاودانہ
ہوگی یہی حقیقت تجھ پر بھی آشکارا
غالبؔ ہے ایک لحظہ ، اقبالؔ ہے زمانہ
جس قوم کے جوانوں کو مرضِ عاشقی ہو
اس قوم کی حقیقت بن جاتی ہے فسانہ
گرویدہ جسم و جاں کے زلفوں کے ہیں یہ شیدا
ہوں گے کہاں سے پیدا جذباتِ خالدانہ
بھٹکے ہوئے مسافر کو کون رہ دکھاۓ
ہے رہبروں کی منزل اب کے جو کوۓ جانہ
جو تھے جواں جفاکش آسائشوں میں گم ہیں
آتا ہے غازیوں کو ناز و ادا زنانہ
صحرا نورد جب سے محمل میں جا بسے ہیں
خاشاک و خس ہیں در پے گلشن بنا نشانہ
محرومِ لطفِ میداں سوزِ جگر سے خالی
نہ دل میں روشنی ہے نہ آنکھ ساحرانہ
افکار بد سے بد تر ہوتے ہیں فکر سے جب
کیا طرزِ مشرقانہ، کیا رنگِ مغربانہ
اے نوجوان شاعر ملت پہ جاں فدا کر
سو خوبیاں ہوں تجھ میں اوصاف فاتحانہ
اس دور میں ہو جینا تو سیکھ رمزِ ہستی
گفتارِ آمرانہ اندازِ حاکمانہ
دیتا ہے درس مجھ کو عہدِ نوی کے بت گر
ملت سے دل لگی ہو بے ضبط والہانہ
شاہؔی تو وہ جواں ہے تخلیق میں ہے جس کی
دو چار خوۓ ناداں دو چار عاقلانہ

1
204
اردو ادب اور شعر و سخن کا معیار
. غالبیؔت یا اقبالیاتؔ

. مجھے رازِ دو عالم دل کا آئینہ دکھاتا ہے
. وہی کہتا ہوں جو کچھ سامنے آنکھوں کے آتا ہے

" پڑھیے شاہؔی تخیلات"

. "کیوں کر ہو تجھ میں پیدا افکارِ قائدانہ"
. " اقبالؔ سے گریزاں ، غالبؔ کا ہو دِوانہ"

آج ہمارے معاشرے میں خصوصاً مدارس میں شعر و ادب کے نام پر امت کے اماموں کو عشق و عاشقی کا درس دیا جاتا ہے یہ نہایت ہی افسوس ناک بات ہے کہ آج نہنگوں کے نشیمن میں ٹر ٹر کرتے مینڈکوں کا بسیرا ہے

چوںکہ اقبال کے اشعار ان کے برہنہ خیالات، ولولہ انگیز جذبات کی عکاسی نہیں کرتے اسلیے یہ کہتے ہیں کہ اقبال کے اشعار معیاری نہیں ہوتے

اور دیگر شعراء چوںکہ کہیں نا کہیں انہیں کسی ٹیلر ماسٹر کی طرح معشوق کی زلفوں کی لمبائی ، بالوں کی جڑ سے چمٹے ہوئے رنگ برنگ مہکتے پھول اور ہمالہ کی چوٹی سے لاۓ ہوئے تیلوں کی خوشبو ، عارض گلفام کے نرم و ملائم خد و خال، سنگ مرمر کی صفوان صفت گال ، گلاب کی پنکھڑی سی رس ملائی شیریں ہونٹوں اور اس کی شوخ سرخی، لب نازک کے ریشے ریشے پر بکھرے شبنم کے بوند کی شہد سے بڑھ کر لذتِ کشش جو دیکھنے والے کو دعوتِ شجاعت دیتی ہو ، جھلملاتے ستارے نما آنکھوں کے سمندر میں جھیل آبشاریں ، صراحی مشابہ گردن کے پیچ و خم ،ابھرتی جوانی کی کافرانہ چال ، توبہ شکن انگڑائی کا بلا خیز نظارہ، ساون کے مہینے میں نیم تراشیدہ بدن کی بھیگی تصویر، سات سمندر کی گہرائیوں سے زیادہ گہری نقطۂ ناف کی گہرائی ، بوس و کنار کے البیلے تراکیب ، جسمِ سکوں ریز پر دست درازی کے انوکھے طریقے، مستانی جوانی کے بھول بھلیے ، رفتار شکن کمر کی گہرائی، پل صراط سے باریک تر باریکی ،صحراۓ عرب جیسے پشت پر انگلیوں کی گھڑسواری، نیم باز نگاہوں کی قاتلانہ ادائیں، رخسار دل افروز پر جان لیوا گڈھا ، تنِ مردہ میں روح پھونک دینے والی مسکراہٹ ، حکومت و سلطنت تباہ کرنے والا دل فریب تبسم الغرض جسم و تن کے نشیب و فراز کے ٹیلے اور کھائی کی ایک حسین وادی کی سیر کراتے ہیں تو یہ اردو ادب اور شعر و سخن کے معیار ہوتے ہیں

اور اقبالؔ چوںکہ عشق مجازی سے نکال کر عشق حقیقی تک لے جاتا ہے ، مے خانے سے مسجد لے جاتا ہے ، محفل رقص و سرود سے دور کر لذتِ سحر گاہی کی تعلیم دیتا ہے ، فکر و نظر کی تنگی کو وسعت افلاک بخشتا ہے ، ملت کے جوانوں کو درس جہابانی سکھاتا ہے ، معشوقۂ دل نواز کی گلیوں کے بجائے حضور رسالت مآب (ﷺ) میں لے جاتا ہے ، عجم کے دیر نشینوں کی صحبت سے نکال کر حرم کے پاسبانوں صحبت سے فیض پہونچاتا ہے ، زاغ و کرگس کو عقابوں و شاہیں کا جگر دیتا ہے ، چیل کوؤں کی دوستی کے بجائے عقابی روح اور شاہین پرواز سے یارانہ کرواتا ہے ، قوم کے بزدلوں کو جوانوں کا جوش و جذبہ مہیا کرتا ہے ، غلام ذہنوں کو حاکم خیال بناتا ہے ، تاریک ذہنوں کو اپنے انقلابی فکر سے منور کرتا ہے ، حیاتِ جاودانی اور پیغامِ ابدیت دیتا ہے، مردہ دلوں میں خون زندگی دوڑاتا ہے، آنکھوں کو تلوار کی کاٹ دیتا ہے ، جو قوال نہیں فعال بناتا ہے ، جو گیدڑوں کو شیروں کے مثل شکار کرنا سکھاتا ہے ، جو سست رفتار کچھووں کو چیتوں کی جھپٹ سکھاتا ہے ،جو تحت الثریٰ کی پستی سے نکال کر اوج ثریا کی بلندی تک لے جاتا ہے ، جو ہند کے محلات سے نکال کر عرب کے ریگزاروں میں خالدؓ جانباز، حیدرؓ کرار ، مثنیؓ و ضرارؓ ، فاروقؓ و صدیؓق سے ملاتا ہے ، جو سیاست ہی نہیں خلافت کا بھی درس دیتا ہے ، جو سوز و ساز رومی ، اور تب و تاب رازی کا درس دیتا ہے الغرض تمام تر کامیابی کی راہ دکھاتا ہے مگر چونکہ وہ ان کے تختۂ ذوقِ سخن پر لذت آفرینی کا ثبوت نہیں دیتا ہے ان کے خیالات کی سرور انگیزی کو برقرار نہیں رکھتا ہے اسلیۓ اقبالیات ان کے لیے معیار نہیں ہیں

میرؔ و غالبؔ کی ادبیات میں کوئی شک نہیں مگر اقباؔل ہمیں ادبیات کے ساتھ ساتھ انقلابی افکار بھی دیتے ہیں مگر حیف کہ اگر کوئی کم سن اقبال کی نقل کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے تو یہ کہہ کر اس کی دل شکنی کی جاتی ہے کہ تمہارے اشعار معیاری نہیں ہیں کیوںکہ تمہارے اشعار میں میؔر کی اسیری اور غالؔب کی رنگینی نہیں ہے

جبکہ اہل مدارس کو چاہیے کو وہ اپنے بچوں میں اقبالیات کو فروغ دے تا کہ ان کے اندر بھی کچھ قائدانہ شعور بیدار ہو جائے تھوڑی بہت ملک و ملت کے دوام کی فکر بھی پروان چڑھ جاۓ مگر نہیں

آپ کی چھٹی حس اس کا ادراک بخوبی کرسکتی ہے کہ ایک" ارشد مدنی "اس وقت پوری ملت کو سہارا دے رہا ہے مبادا اگر انہیں کچھ ہو جاتا ہے تو کیا آپ کو اس بارِ گراں منصبِ قیادت کو دوشِ ناتواں پر رکھنے والے افراد میسر ہیں نہیں، بالکل نہیں، کوئی نعم البدل نہیں

جبکہ آج کل کے مولوی تو ویسے ہی ڈرپوک و بزدل ہیں کیوںکہ وہ میر و غالب کو پڑھتے پڑھاتے ہیں اردو ادب شعر و سخن کا معیار انہیں ہی بناتے ہیں تو ظاہر ہے کہ ان میں اقبال ؔ جیسے عہد ساز اور رجال ساز کی طرح اعلی فکر تو پیدا ہونے سے رہی
ہاں، البتہ میر و غالب کو پڑھ کر یہ کہیں نا کہیں بیت بازی کرلیں گے اور کہیں قوالی بھی کر ہی لیں گے

لیکن میں کم عمر ہوں کم علم ہوں تو ظاہر ہے کہ ہمارے شریکِ بزم ہوں یا اہلِ انجمن ہوں یا ملت کے قابل قدر رہبر ہوں ذرہ برابر لائق توجہ نہیں سمجھیں گے

میں "دار العلوم دیوبند" میں تین سال سے ہوں مگر آج تک کہیں اقبال کی کوئی نظم نہیں دیکھی اور سوال بھی پیدا نہیں ہوتا ہاں، میر و غالب ، کلیم و فراز جیسے ہزاروں ملے یہی وجہ ہے کہ آج ان مولویوں میں کوئی قائدانہ صلاحیتوں سے سرشار نہیں ہے اور اگر کوئی ہے تو اسے کہا جاتا ہے کہ آپ ابھی بچے ہیں کم عمر ہیں چھوٹے ہیں آپ جانتے ہی کیا ہیں آپ ہمارے معیار کے نہیں ہیں ، آپ کو شہرت مطلوب ہے ، آپ سراسر ریاکاری کے مرتکب ہیں وغیرہ وغیرہ
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خداوند کریم کے یہ بندے اپنی ماں کے پیٹ سے ایسے ہی پیدا ہوئے جیسا کہ حال میں ہیں

(ماخوذ از مشاہداتِ شاہیؔ )