زمانے اب وہ پرانے نہیں رہے
محبتوں کے ترانے نہیں رہے
کسے سنائیں گے اب داستان غم
کہ ملنے کے تو بہانے نہیں رہے
کدورتوں کو مٹا دے دلوں سے جو
محبتوں میں نشانے نہیں رہے
جہاں سے ملتے تھے الفت کے جام اب
بڑے وہ بوڑھے سیانے نہیں رہے
عجیب حال ہے ساغر زمانے کا
سکوں پذیر ٹھکانے نہیں رہے

0
151