پانیوں کے شور میں یہ خامشی کیسی ہے آج
زندگی کے خواب میں یہ بے حسی کیسی ہے آج
پیڑ سارے جل رہے ہیں آگ میں سرکار کی
خاک ہو جائیں گے گل، یہ سرکشی کیسی ہے آج
ہم نے خود ہی کاٹ دی ہیں سب جڑیں اس پیڑ کی
شاخیں ساری خشک ہیں، یہ بے بسی کیسی ہے آج
زندگی کی جنگ ہے یا موت کی دہلیز ہے
اب ہوا میں سانس میری اکھڑی سی کیسی ہے آج
روشنی کے نام پر تاریکی ہے ہر ایک سُو
صبح بھی ہے رات سی، یہ تیرگی کیسی ہے آج
زندگی کی دوڑ میں ہم کھو چکے ہیں منزلیں
راستے ہیں گُم سبھی، یہ خستگی کیسی ہے آج
ہے مری یہ جستجو، احسن! یا قسمت کی ہے چال
ہر قدم پر خوف ہے، یہ بے کسی کیسی ہے آج

0
35