| یہ رمزِ ہستی سمجھ میں نہ جب تلک آئے |
| ہو ظرف تنگ تو ، پیمانہ پھر چھلک آئے |
| ہوئی ہے خشک زمیں، آفتاب جلتا ہے |
| ہے انتظار ، لئے ابر اب ، فلک آئے |
| یہ کر رہا ہے دلوں پر اثر سبب ہے کیا |
| ترے سخن میں ترے دل کی اک جھلک آئے |
| ہم اس لئے بھی نہیں دیکھتے ترا چہرہ |
| کہ ہم نے دیکھے ہیں موتی سرِ پلک آئے |
| تمہارا ذکر کبھی اس لئے نہیں کرتا |
| کہیں نہ آنسُو کوئی آنکھ سے ڈھلک آئے |
| نقاب رُخ سے تُو کیا اس لئے اٹھاتا ہے |
| نظر تجھے مری چاہت کی بھی *لَلَک آئے |
| لُٹا کے اپنوں کی جاں ، بیٹھے راہ تکتے ہیں |
| دلاسہ دینے کو طارِق ؔ ، کوئی مَلَک آئے |
معلومات