| آنکھوں میں کوئی خواب تھا ہی نہیں |
| شکر ہے اضطراب تھا ہی نہیں |
| وہ فسانے فقط فسانے تھے |
| کوئی اہلِ کتاب تھا ہی نہیں |
| اُس گمانِ گماں کے عالم میں |
| وہ یقیں کا شراب تھا ہی نہیں |
| ہم بھی دشتِ جنوں میں اترے تھے |
| حسن تیرا سراب تھا ہی نہیں |
| بس کسی سوچ نے ہی اُلجھا رکھا |
| در حقیقت عذاب تھا ہی نہیں |
| ایک دنیا جو ہم نے خود دیکھی |
| وہ کسی کا نصاب تھا ہی نہیں |
| اس شبِ غم کے بام پر ہائے |
| صبح کا آفتاب تھا ہی نہیں |
| کوئی خوشبو کے ساتھ آیا تھا |
| ورنہ موسم گلاب تھا ہی نہیں |
| ہجر کو ہم نے ایک نظم کہا |
| وصل کا کوئی باب تھا ہی نہیں |
| ہم نے سوچا تھا تم سے کچھ کہہ دیں |
| پر ہنر کا حساب تھا ہی نہیں |
| پھول کھلتے رہے بہاروں میں |
| مگر ان میں گلاب تھا ہی نہیں |
| ہم بھی اپنی مثال چھوڑ آئے |
| ورنہ کوئی جواب تھا ہی نہیں |
| اک حقیقت تھی جو چلی آئی |
| اور خوابوں کا خواب تھا ہی نہیں |
معلومات