بس ذرا دیر اپنا بنا لو صنم
جو بھی چاہو گے قیمت چکا دیں گے ہم
ہاتھ پر ہاتھ رکھ دو ہمارے ذرا
اپنا سب کچھ یہیں پر لٹا دیں گے ہم
انگلیاں تو کنول کے تنے کی طرح
مستقل رقص کرتی ہیں تھکتی نہیں
خود کو جتنا تمہارے حوالے کریں
میری جانب کبھی بھی بھٹکتی نہیں
سنگِ مر مر کے ناخن تمہارے صنم
پھول کی پتیوں سے بھی نازک بنے
اپنے ناخن ہمیں آج دے دو ذرا
زخم جتنے بھی ہیں سب تمہارے ہوئے
یہ ترے ہونٹ جام و صبو کی طرح
ہم کو مدہوش کرتے ہیں خوابوں میں بھی
اور آنکھیں تو تلوار کی دھار ہیں
روح میں چھید کر دیں خیالوں میں بھی
اور کاکل تمہارے بھنور کی طرح
ہم سے لپٹے ہیں جیسے ڈبو دیں گے اب
ناخدا ہیں تو کتنے عجب بھی تو ہیں
اپنی ناؤ کو خود ہی ڈبو دیں گے اب

0
33