پیامِ محبت نہ آیا بلم کا
ہوا دل ہے آشفتہ خاطر صنم کا
نگاہِ تغافل کا ہے رقصِ پیہم
"تسلسل نہ ٹوٹا تمہارے ستم کا"
تفکر میں تعمیرِ نو جب ہو شامل
اثر انقلابی رہے پھر قلم کا
طلب گار بن کے سدا ہم رہیں تو
نتیجہ نَفع بخش ہوگا رقم کا
مقدر سنور جائے ناصؔر ہمارا
ہو احساس گر اٹھنے والے قدم کا

0
47