تم سے جو بات اب نہیں ہوتی
صبح کیا رات اب نہیں ہوتی
ملنا تیرا جو تھا قیامت تب
وہ ملاقات اب نہیں ہوتی
تُو تو ملتا تھا جتنا میں چاہوں
ویسی بہتات اب نہیں ہوتی
یہ تو دعویٰ فقط رہا تیرا
تو مرے ساتھ اب نہیں ہوتی
جس سے کھِلتی ہوں کونپلیں من میں
ویسی برسات اب نہیں ہوتی
وہ جو رکتا تھا تیرے بن یہ دل
دل کی وہ مات اب نہیں ہوتی
تیری جو یاد پکڑے رکھتا تھا
وہ مرے ہاتھ اب نہیں ہوتی
اے ہمایوں تو اب کے باز آ جا
یہ خرافات اب نہیں ہوتی
ہمایوں

0
12