بچپن میں جس میں کھیلا تھا ملتا وہ گھر نہیں
"عرصے سے اس دیار کی کوئی خبر نہیں"
یہ نیم جان گُھلتا ہے ہی رہتا ہے بے طرح
دل کی مرے ڈگر جو تری رہ گزر نہیں
ہوتا کوئی تو سہتا نہ بیداد کو تری
لیکن مرا جنون بھی آشفتہ سر نہیں
اب فکر کیا ہو مجھ کو کہ ہے تجھ کو پالیا
ہوتا ہے جو بھی ہو مجھے ا ب اس کا ڈر نہیں
لفظوں میں دین باقی ہے افسوس آج کل
ہم اب عمل کے واسطے سینہ سپر نہیں
وہ جس کو ہو نہ قدر جو انساں کی طاہرہ
میرے لیے وہ شخص کبھی معتبر نہیں

21