وار، اے عشق ترا دل پہ جو چل جاتا ہے |
نور کے سانچہ میں بس دل وہی ڈھل جاتا ہے |
دل میں جب عشق، ترا نور اتر جاتا ہے |
ذات کے سارے ہی خطروں سے سنبھل جاتا ہے |
عشق جب نور ترا دل میں ہو دائم قائم |
دل جو بدلے نہ کبھی، ایسا بدل جاتا ہے |
دل کو صحبت کا مزہ عشق ترا لگ جائے |
زور جتنا بھی "انا" کا ہو نکل جاتا ہے |
درس اے عشق ترا دل نے جو سمجھا اتنا |
دل ہو بلوان اگر "میں" کا جو بَل جاتا ہے |
تاب اے عشق تری دل جو اٹھا پائے کوئی |
پردہ جو "رازِ انا" کا ہے وہ جل جاتا ہے |
دل ترے زور سے "اے عشق" امانت کا امیں |
جو فرشتوں کے سروں سے بھی پھسل جاتا ہے |
فیض اے عشق ہوا دل کو تری صحبت کا |
نفس میں اٹھتا ہے طوفان تو ٹل جاتا ہے |
عرش کے فرش پہ اے عشق نظر آتا ہے قد |
جب ترا غم کہ کسی دل میں جو پل جاتا ہے |
عالمِ ترک میں اے عشق لے جا پھر دل کو |
کوئی لے کر نہ وہاں میرا عمل جاتا ہے |
حضرتِ عشق ترے آگے ذکیؔ کا دل کیا |
تیری صحبت میں تو پتھر بھی پگھل جاتا ہے |
معلومات