وار، اے عشق ترا دل پہ جو چل جاتا ہے
نور کے سانچہ میں بس دل وہی ڈھل جاتا ہے
دل میں جب عشق، ترا نور اتر جاتا ہے
ذات کے سارے ہی خطروں سے سنبھل جاتا ہے
عشق جب نور ترا دل میں ہو دائم قائم
دل جو بدلے نہ کبھی، ایسا بدل جاتا ہے
دل کو صحبت کا مزہ عشق ترا لگ جائے
زور جتنا بھی "انا" کا ہو نکل جاتا ہے
درس اے عشق ترا دل نے جو سمجھا اتنا
دل ہو بلوان اگر "میں" کا جو بَل جاتا ہے
تاب اے عشق تری دل جو اٹھا پائے کوئی
پردہ جو "رازِ انا" کا ہے وہ جل جاتا ہے
دل ترے زور سے "اے عشق" امانت کا امیں
جو فرشتوں کے سروں سے بھی پھسل جاتا ہے
فیض اے عشق ہوا دل کو تری صحبت کا
نفس میں اٹھتا ہے طوفان تو ٹل جاتا ہے
عرش کے فرش پہ اے عشق نظر آتا ہے قد
جب ترا غم کہ کسی دل میں جو پل جاتا ہے
عالمِ ترک میں اے عشق لے جا پھر دل کو
کوئی لے کر نہ وہاں میرا عمل جاتا ہے
حضرتِ عشق ترے آگے ذکیؔ کا دل کیا
تیری صحبت میں تو پتھر بھی پگھل جاتا ہے

86