مدُھر سُر کان میں رس گھولتا ہے
وہ یاد آئے ، مرا دل ڈولتا ہے
مری شہ رگ سے بھی نزدیک ہے جو
مرے اندر وہی تو بولتا ہے
اکیلے میں جو پوچھو سر جھُکا کر
وہ سربستہ سبھی گُن ، کھولتا ہے
تمہاری بات میں ہے وزن کتنا
وہ سن کر بھی عمل کو تولتا ہے
عیاں اِس سے ہے اُس کی بے نیازی
فراعینِ زمانہ رولتا ہے
ہے قیمت ہر کسی کی کیا مقرّر
کہاں پر کس کا ایماں ڈولتا ہے
رکھے مضبوط ، دشمن مجھ کو طارقؔ
دِکھُوں کمزور ، تو وہ بولتا ہے

0
17