اک حسیں خواب کی تعبیر دکھاتے جاتے |
ہم سے مل جاتے اگر آپ بھی آتے جاتے |
ہے کوئی ایسی جگہ یاد نہ آؤ گے جہاں |
ہم کہاں جائیں گے تم اتنا بتاتے جاتے |
تم نے جانا تھا بہ صدشوق چلے جاتے مگر |
کوئی اچھا سا بہانہ تو بناتے جاتے |
یہ مری خوبیٔ قسمت تھی کہ تھا عشق مرا |
لوٹ آئے ہیں کئی بار وہ جاتے جاتے |
وہ سرِ شام جلا دیتا ہے یادوں کے چراغ |
ہم سے اتنا نہ ہوا ان کو بجھاتے جاتے |
وہ تو دھڑکن کی طرح ساتھ لگا ہے دل کے |
دل رکے جب تو ہیں سینے کو دباتے جاتے |
مکتبِ عشق میں داخل ہوئے اب دیر ہوئی |
وہ نیا کوئی سبق ہم کو پڑھاتے جاتے |
صبر سے ہم نے سہا عشق میں جو بھی گزرا |
وہ دلاسہ ہی کوئی دل کو دلاتے جاتے |
اس نے وعدہ ہی نہیں ہم سے کیا ملنے کا |
ہم سرِ شام اسے لیتے گھماتے جاتے |
اس کو ملنے کا بہانہ ہی سہی گر وہ کہے |
ہم کوئی اس کا دوپٹہ ہی رنگاتے جاتے |
ہم نے سوچا تو کئی بار یہ ممکن نہ ہوا |
دل پہ لکھا ہوا اک نام مٹاتے جاتے |
ہم کئی بار گئے ان سے فقط اتنا کہا |
فیصلہ کوئی ہمارا بھی سناتے جاتے |
ہم نے کچھ اور تو مانگا نہیں طارق ان سے |
ساتھ دینے کا جو وعدہ تھا نبھاتے جاتے |
معلومات