رستے پہ جو چلے تھے، وہ سنسان ہو گئے
تم ساتھ جو نہیں تو یہ ویران ہو گئے
آنکھوں میں تیرتی ہیں تمہاری ہی صورتیں
خواہش کے سب دیے تبھی بےجان ہو گئے
آغازِ زندگی میں ترا ساتھ، ساتھ تھا
اب آخری پہر میں تو مہمان ہو گئے
ہر پل تمہارے نام ہے، دھڑکن تری صدا
ہم بھی تمہارے غم میں پریشان ہو گئے
جب دوستوں نے مجھ سے یوں دامن چھڑا لیا
سب خواب میرے چاک گریبان ہو گئے
جو اپنوں نے کیے ہیں کئی وار درد کے
آنسو مرے تو درد کا سامان ہو گئے
جن راستوں پہ عشق کے، ہم ساتھ ساتھ تھے
وہ راستے چمن سے بیابان ہو گئے

0
30