لڑ کھڑائی رات تو دن کو پسینہ آ گیا
آ پ آ پہنچے تو ساون کا مہینہ آگیا
مے کشو ساقی کے اندازِ تکلّم پر نہیں
جام اس کا ہے جسے محفل میں پینا آگیا
عشق کی وادی میں عقل و خرد کی بے چارگی
حُسن کی محفل میں جینے کا قرینہ آگیا
ایک معمولی سے ذرّے سے مری تخلیق کی
دیکھ لے آکر اسی ذرّے کو جینا آگیا
طاق ہوں ہر کام میں ایسا ضروری تو نہیں
ہم کہاں درزی تھے لیکن چاک سینا آ گیا
چھوڑ دو امید ساری یاوہ گوئی چھوڑ دو
نا خدا کیسے ہو گردش میں سفینہ آگیا

0
57