دشتِ جاں میں جی بے قرار ہے بہت |
آ بھی جا تیرا انتظار ہے بہت |
یہ اداکاری تیری ٹھیک ہے مگر |
خود پہ بھی دل یہ شرمسار ہے بہت |
دل یہاں تھوڑا سا سنبھل کے چلنا تو |
دیکھو یہ دنیا دنیا دار ہے بہت |
دل جسے خود پہ اعتبار بھی نہیں |
ناداں کو تجھ پہ اعتبار ہے بہت |
سب کو آخر یہیں پناہ ملتی ہے |
عشق کا پیڑ سایہ دار ہے بہت |
اس کی آنکھیں بھی مے کدے سے کم نہیں |
اور یہ دل بھی بادہ خوار ہے بہت |
اب کسی خواب کی طلب نہیں مگر |
پھر بھی آنکھوں میں انتظار ہے بہت |
اک سرابِ وصال تھا، گزر گیا |
ہجر ہے اور یادگار ہے بہت |
معلومات