دشتِ جاں میں جی بے قرار ہے بہت
آ بھی جا تیرا انتظار ہے بہت
یہ اداکاری تیری ٹھیک ہے مگر
خود پہ بھی دل یہ شرمسار ہے بہت
دل یہاں تھوڑا سا سنبھل کے چلنا تو
دیکھو یہ دنیا دنیا دار ہے بہت
دل جسے خود پہ اعتبار بھی نہیں
ناداں کو تجھ پہ اعتبار ہے بہت
سب کو آخر یہیں پناہ ملتی ہے
عشق کا پیڑ سایہ دار ہے بہت
اس کی آنکھیں بھی مے کدے سے کم نہیں
اور یہ دل بھی بادہ خوار ہے بہت
اب کسی خواب کی طلب نہیں مگر
پھر بھی آنکھوں میں انتظار ہے بہت
اک سرابِ وصال تھا، گزر گیا
ہجر ہے اور یادگار ہے بہت

0
52