نام پہلے اچھالا گیا.
پھر مجھے مار ڈالا گیا
عسر یسرا سمجھ آ گیا
جب گرا کے سنبھالا گیا
ایک دیوار کی آڑ میں
گھر کا گھر توڑ ڈالا گیا
اپنے گھر کی خوشی کے لیے
خواب تک روند ڈالا گیا
آپ پردے میں کیا آگئے
شہر سے پھر اجالا گیا
سب کی خاطر وہی پھول ہے
جس کو کانٹوں میں پالا گیا
ہم سخن فہم یہ دیکھیے
تھال ہے پر نوالہ گیا
باغ میں پھول ہم سے کھلے
اور ہمی کو نکالا گیا
جام آنکھوں میں اب دیجیے
میرے ہاتھوں سے پیالہ گیا
اس لیے مجھ میں ہے عاجزی
مجھ کو مٹی سے ڈھالا گیا
بچوں کی بھوک کے واسطے
پانیوں کو ابالا گیا
ذکر مولا سے خالد کے غم
پل میں اللّہ تعالیٰ گیا

13