کہو تو زخم کو پھر آبلہ بناتے ہیں
لہو کی بوند سے اک آئینہ بناتے ہیں
ہمارا فن ہے کہ مایوسیوں کے ساحل پر
ہمارے ہاتھ مِلیں تو دُعا بناتے ہیں
تمہارا زعمِ خدائی انہی پہ قائم ہے
تراشتے ہیں جو پتھر، خدا بناتے ہیں
حجاز و قدس کو رکھتے ہیں اپنے مرکز میں
پھر اس زمین پہ اک دائرہ بناتے ہیں
یہ آفتاب بہت دیر تک نہیں چلتا
یہی تو سوچ کے اکثر دِیا بناتے ہیں
اب آؤ چاک پہ رکھ دیں جہانِ لالہ و گل
اسی کی خاک سے اک اپسرا بناتے ہیں

0
4