کیا خوب ثنا اُن کی دل سوز میں گاتا ہے
جو یار کو بھاتا ہے وہ عشق سکھاتا ہے
آشا ہے جو سینے میں یہ اشک گواہی دیں
کب چاہوں میں وہ رستہ درِ غیر جو جاتا ہے
بیگانہ ہو من میرا ہر غیر کے لالچ سے
مجھے آس ہے رہبر کی جو یار ملاتا ہے
بطحا ہے ہدف میرا جو قبلہ ہے عاشق کا
امید سے جس کی دل ہر آن میں رہتا ہے
آ جوش میں بحرِ جاں طغیانی ہو رحمت میں
ملے مجھ کو وہی بیڑا بطحا کو جو جاتا ہے
اے بادِ بہاری جا ہے عرض یہ دلبر سے
اک بردہ پیشاں ہے جو اشک گراتا ہے
بے بس کو بلا لینا ایجاب ہوں فریادیں
نغمات یہ سرور کے ہر حال میں گاتا ہے
آسان کریں مولا ہیں راہیں جو طیبہ کی
یہ حال زمانے کا اب خوب ڈراتا ہے
محمود کو اے داتا اس در سے محبت ہے
اسے کہہ دے کوئی آ کر محبوب بلاتا ہے

13