چراغوں کی صورت بکھرتا ہوں میں |
ستاروں کی جانب لپکتا ہوں میں |
زمانے کی ٹھوکر سے ہارا نہیں |
کہ خود اپنے وعدے پہ جیتا ہوں میں |
اندھیروں سے لڑتا ہوا ایک دن |
امیدوں کے ساحل پہ رکتا ہوں میں |
نہ موسم کی سردی، نہ گرمی کا خوف |
کہ ہر حال میں خود کو جانا ہوں میں |
جو چڑھتی ہے دیوار ظلمت یہاں |
سبھی پتھروں کو ہٹاتا ہوں میں |
نہ طوفان کے سامنے جھک سکا |
کہ اپنے ہی جذبے میں بہتا ہوں میں |
بہاروں کے جلوے میں کھلتا ہوں میں |
خزاں کے اندھیروں میں ڈھلتا ہوں میں |
نہ گلشن کی رونق، نہ صحرا کا درد |
کہ فطرت کی خوشبو میں بستا ہوں میں |
جہاں ہر طرف خامشی کا سماں |
وہاں خود سے ہی گونج اٹھا ہوں میں |
نہ منزل کا کوئی پتا ہے مگر |
کہ ہر راستے کا شناسا ہوں میں |
معلومات