یہ سب قسمت کا ہے کھیل |
کبھی تنگدستی، کبھی دولت کی ریل پیل |
مدتوں جسے سمجھا تھا اپنا |
وقتِ بُرے، اُس نے ہی نہ پہچانا |
کبھی ہم کو ملی مہمانوں کی قدر |
کبھی فٹ پاتھ پہ کٹا راتوں کا سفر |
اپنوں کی بے رخی نے رُلایا، |
اجنبیوں پہ کیا میں شکوہ لے آیا |
جس مسیحا کی تھی مجھے آرزو |
ابھی تک نہ پایا کوئی رہنما سُو |
کچھ خیرخواہوں پہ تھا اعتماد |
مگر ان کے وعدوں سے ہو گیا دل برباد |
معلومات