یہ سب قسمت کا ہے کھیل
کبھی تنگدستی، کبھی دولت کی ریل پیل
مدتوں جسے سمجھا تھا اپنا
وقتِ بُرے، اُس نے ہی نہ پہچانا
کبھی ہم کو ملی مہمانوں کی قدر
کبھی فٹ پاتھ پہ کٹا راتوں کا سفر
اپنوں کی بے رخی نے رُلایا،
اجنبیوں پہ کیا میں شکوہ لے آیا
جس مسیحا کی تھی مجھے آرزو
ابھی تک نہ پایا کوئی رہنما سُو
کچھ خیرخواہوں پہ تھا اعتماد
مگر ان کے وعدوں سے ہو گیا دل برباد

0
9