رات کیا لطف میں بسر ہوتی
ریشمی ریشمی سحر ہوتی
تیرے بازو پہ رکھ کے سر سوتے
زلف تیری اِدھر اُدھر ہوتی
میری صدیوں کی خشک پیشانی
تیرے ہونٹوں سے لگ کے تر ہوتی
تیری ہر ہر ادا فدا ہوتی
میری پوری ہر اک کسر ہوتی
نیند پڑتی نہیں مجھے تنہاؔ!
زندگی کاش! مختصر ہوتی

0
81