خوبیِ چشمِ پیر کو میرا سلام ہے |
اِن کے سِوا شراب کا پینا حرام ہے |
نظروں کی شوخیوں سے ہی مخمور شام ہے |
بیشک یہ میکدہ تری آنکھوں کا نام ہے |
عالم ہے وجد و حال کا طاری وجود پر |
پیشِ نگاہ اہل طرب کا امام ہے |
مل نے لگا ہے پیرِ مغانِ جہاں سے جام |
ہر سمت میکدے میں مچی دھوم دھام ہے |
افتادِ دامِ نفس ہوں مجھ کو بچائیے |
دستِ کرم میں آپ کے میری لگام ہے |
کس واسطے کو غیر کی جانب اٹھے نظر |
میری طلب کو بس درِ جاناں سے کام ہے |
قدموں کو میرے بخش دے خوئے ثبات تو |
تیری نظر کا دو جہاں میں فیض عام ہے |
رندوں کے بیچ خوب مرا نام ہو گیا |
ساقی کا جب سے لطف مرے گام گام ہے |
روزِ الست تیرا گرفتار مَیں ہُوا |
زلفوں کا دام ہے تری زلفوں کا دام ہے |
اب ہر نَفَس *اثر* کو تری آرزو رہے |
اس کو پلا دے ساقیا یہ تشنہ کام ہے |
معلومات