دل کو بس نامِ سکینہؑ سے تسلی آئے
اس محبت میں کمی اب نہ الٰہی آئے
خود سے لپٹائے سکینہؑ کو پھپھیؑ سوچتی ہے
کوئی زنداں کے اندھیروں میں کرن ہی آئے
بیٹھ جاتے ہیں جگر تھام کے تنہائی میں
جب کبھی یاد سکینہؑ کی غریبی آئے
پیٹ کر سینہ و سر کرتے ہیں فریاد یہی
یا الٰہی نہ کسی پر یوں یتیمی آئے
خون کے اشک جو بہتے ہیں تو تھمتے ہی نہیں
سامنے آنکھوں کے اک قبر جو چھوٹی آئے
جب سرِ دشتِ بلا آئے جنابِ حیدرؑ
بے ردا کیسے بھلا سامنے بیٹیؑ آئے
شعر لکھتی ہوں تو قرطاس پہ خوں بہتا ہے
یاد عُظمؔیٰ جو وہ زندان کی قیدی آئے

0
225