تنہائیوں کے ڈر سے تنہا رہا ہوں میں
ان چاہتوں کے در سے سہما رہا ہوں میں
بنتا رہا ہوں گنجل سوچوں کی راہ پر
ان عادتوں میں اپنی سادہ رہا ہوں میں
بربادیوں کا میری کچھ بھی رہا سبب
خود سے گلے ہی سارے کرتا رہا ہوں میں
پھولوں کی خواہشوں میں چلتا گیا جو میں
کانٹے ہی زندگی میں چنتا رہا ہوں میں
موجوں کو سر اٹھانے کی حسرتیں رہیں
جذبوں میں اس طرح سے پنہاں رہا ہوں میں
سوچوں کو موڑ کر بھی منزل نہ دے سکا
اک یاس کے سفر پر چلتا رہا ہوں میں
تھے راستے بہت سے اور منزلیں بھی تھیں
تیری وفا پہ آ کے اٹکا رہا ہوں میں
تھا قسمتوں کا چکر تھا یا نصیب جو
منزل کے پاس آ کے بھٹکا رہا ہوں میں
امید کے چمن میں ویرانیاں رہیں
ویرانیوں میں پھر بھی چلتا رہا ہوں میں
تم کو لگی ہمایوں ہے چوٹ عشق میں
اپنے دکھوں کو سی کر ہنستا رہا ہوں میں
ہمایوں

21