آپ تو جانِ جہاں ہونے لگے |
ہم کہ گھر میں مہماں ہونے لگے |
ذکر ان کا تو نہیں اتنا کرو |
کہ حقیقت کا گُماں ہونے لگے |
اے مرے شوق، عطا کر وہ نگاہ |
روزِ محشر کا سماں ہونے لگے |
بازی تو میں نے پلٹ ایسے ہے دی |
وہ بھی کچھ غلطاں وہاں ہونے لگے |
اے مُصوِّر بنا کچھ ایسا ذرا |
رنگوں میں ہجر بیاں ہونے لگے |
میری حق گوئی رہی زِیرِ نَقد |
چرچے اب زیرِ زُباں ہونے لگے |
کسَمپُسری کو تصور تو کرو |
گر سخن ور بے زُباں ہونے لگے! |
وصل تِشنہ ہے مگر ہجر طویل |
تہِ دل شکوے، عیاں ہونے لگے |
مِؔہر خود ساختہ ہیں، ضابطے سب |
گو قَضیّے تو سمع ہونے لگے |
---------***---------- |
معلومات