کیسے تم کو فقیر گردانیں
تم کو اچھی طرح سے پہچانیں
تم فقط نیند چھین سکتے ہو
خواب چھینو تو ہم تمہیں مانیں
ناز کرتے ہو اپنی نفرت پر
بار اُٹھاؤ جو پیار کا جانیں
گھر سے نکلے ہیں دیکھئے جا کر
ٹوٹتی ہیں کہاں پہ اب تانیں
ابر برسے ہوئی ہے اک مدّت
کھیت سوکھے ہیں خشک کھلیانیں
کتنے آئین اور بدلیں گے
فیصلہ کیا کریں گی ایوانیں
کون نیچے اتر کے دیکھے گا
اونچی اونچی ہیں سب کی کوہانیں
اب تو عر صہ ہوا ترے گھر سے
لوگ سنتے نہیں ہیں آ ذانیں
کھودنے کی ذرا ضرورت ہے
پائیں سونے کی ہر طرف کانیں
بیٹھتے ہیں کسی کے قدموں میں
پوچھتے کیا ہو کیا ہیں اب شانیں
طارق اک اور بھی تو ہے دنیا
جس میں ہوتی ہیں اور میزانیں

0
57