یہ ایسا موڑ ہے جاناں کہ ہے لازم پھسل جانا
ذرا ہم بھی سنبھل جائیں ذرا تم بھی سنبھل جانا
جہاں تک چل سکو تم ساتھ میرے چل پڑو جاناں
جہاں راہیں بدل جائیں وہاں تم بھی بدل جانا
نہ کوئی زور ہے تم پر بہانہ ڈھونڈتے کیوں ہو
تمہیں ہر پل اجازت ہے کہ جب چاہو نکل جانا
مجھے تم آزمانے دو کہ تم میں صبر ہے کتنا
جہاں پر ضبط یہ ٹوٹے وہاں تم بھی بدل جانا
اثر اب کچھ نہیں ہوتا ہماری ذات کا تم پر
کہ سن کر نام پہلے تم کو عادت تھی مچل جانا
مجھے پل یاد آتے ہیں تمھارے ساتھ کے اکثر
رواں دریا، سہانی شام اور سورج کا ڈھل جانا

0
20