زندگی یا موت ابھی تک فیصلہ کچھ بھی نہیں
مجھ سے بیمارِ محبت کی دوا کچھ بھی نہیں
ان سے بچھڑے ہیں مگر زندہ ہیں پہلے کی طرح
وہ سمجھتے ہیں ہمیں اب تک ہُوا کچھ بھی نہیں
عشق صادق ہے ہمارا، ہم کہاں گھبرائیں گے
آپ کا غصہ، غضب، جور و جفا، کچھ بھی نہیں
یوں ہی، بے جا، بے سبب، تم ہم سے ہوتے ہو خفا
بوسہ ہی تو مانگتے ہیں اور خطا کچھ بھی نہیں
لڑکھڑائے ہیں نمازِ فجر میں کچھ نیند سے
شیخ جی نے رات میں ورنہ پیا کچھ بھی نہیں
ان سے اظہارِ محبت تو کیا لیکن جناب
سر ہلا کر چل دیے ہاں میں، کہا کچھ بھی نہیں
وصل کی رات ایک دیدار اور دو باتیں ہوئیں
یوں سمجھ لیجے بنا لیکن بنا کچھ بھی نہیں
خونِ ناحق کا ہمارے ہے کفِ قاتل پہ داغ
کہتا ہے جو ما سوا رنگِ حنا کچھ بھی نہیں
ریت، گیلی ریت، پانی اور پھر بحرِ بلا
ابتدائے عشق تو ہے، انتہا کچھ بھی نہیں
دیکھیے بنتا ہے کیا محشر میں تنہاؔ آنحضور
پارسا ہیں یا گنہگار اب پتا کچھ بھی نہیں

0
115