بن ترے چین سے یہ زیست گزارا کرتے
ہم یہاں کیسے اذیت یہ گوارا کرتے
موم سمجھے تھے ترے دل کو سو پتھر نکلا
پھر بھی ہم  تجھ کو یوں شدت سے پکارا کرتے
توڑ ڈالا ہے یوں ایقان ہی ورنہ ہم بھی
تیری آنکھوں سے ہی دنیا کا نظارا کرتے
پوچھیں جوں خواب کی یاں کس نے چکائی قیمت
میری جانب ہی ترے لوگ اشارا کرتے
کیوں گنا جاتا ہے اب نام خطا کاروں میں
اب تو مدت ہوئی دنیا سے کنارا کرتے
ہم رہے عمر بھر انجان ہنر سے اپنے
خاک کو ہاتھ لگاتے تو ستارا کرتے

0
46