وہ جو آگے کی کبھی سوچنے لگ جاتے ہیں |
ہر امانت وہ مجھے سونپنے لگ جاتے ہیں |
میں گڈریا ، مرے الفاظ ہیں ٹوٹے پھوٹے |
بن کے موسیٰ سبھی ، کیوں ٹوکنے لگ جاتے ہیں |
میں جو سچائی کو دیکھوں تو اثر ہوتا ہے |
پھر بھی کیوں لوگ مجھے روکنے لگ جاتے ہیں |
ہے مرا کام تو پیغام کا دینا گھر گھر |
لوگ کچھ سن کے اسے کھوجنے لگ جاتے ہیں |
اونگھ جاتے ہیں کئی ، دل نہیں مُردہ جن کے |
سن کے پیغام مرا چونکنے لگ جاتے ہیں |
بولنے والوں کی صحبت جو ملے ، گونگوں کو |
بول کر راز کئی کھولنے لگ جاتے ہیں |
آگ نمرود کی جلتی ہے ، براہیم جو ہے |
ایندھن اب اور طرح ، جھونکنے لگ جاتے ہیں |
یاد اک ماں کی ستاتی ہے ہمیں جب طارق |
ہم سعی کرتے ہوئے دوڑنے لگ جاتے ہیں |
معلومات