وہ جو آگے کی کبھی سوچنے لگ جاتے ہیں
ہر امانت وہ مجھے سونپنے لگ جاتے ہیں
میں گڈریا ، مرے الفاظ ہیں ٹوٹے پھوٹے
بن کے موسیٰ سبھی ، کیوں ٹوکنے لگ جاتے ہیں
میں جو سچائی کو دیکھوں تو اثر ہوتا ہے
پھر بھی کیوں لوگ مجھے روکنے لگ جاتے ہیں
ہے مرا کام تو پیغام کا دینا گھر گھر
لوگ کچھ سن کے اسے کھوجنے لگ جاتے ہیں
اونگھ جاتے ہیں کئی ، دل نہیں مُردہ جن کے
سن کے پیغام مرا چونکنے لگ جاتے ہیں
بولنے والوں کی صحبت جو ملے ، گونگوں کو
بول کر راز کئی کھولنے لگ جاتے ہیں
آگ نمرود کی جلتی ہے ، براہیم جو ہے
ایندھن اب اور طرح ، جھونکنے لگ جاتے ہیں
یاد اک ماں کی ستاتی ہے ہمیں جب طارق
ہم سعی کرتے ہوئے دوڑنے لگ جاتے ہیں

0
77