مقابل تھے کئی رستے چلیں کس پر کہاں جائیں
نگاہوں کو طلب جن کی نہیں ملتے جہاں جائیں
سفارش کیوں نہیں کرتے اجالوں کی ستاروں سے
کبھی مجھ پر چمک اٹھیں کہیں مجھ میں سماں جائیں
گناہوں سے بھرا دامن خطائیں بھی ہزاروں ہیں
سزا دے دے اسیری کی بنا تیرے کہاں جائیں
سنبھالا تھا مجھے لیکن گرایا بھی فلک سے تھا
بکھرتے ہیں مرے ٹکڑے یہاں جائیں وہاں جائیں
مچا کے غل چلے ہیں اب اچانک پھر خموشی ہے
ہمیں تو چپ ملی ورثہ مرے بھی بے زباں جائیں
شگافوں سے بھرے دل کو اگر چھیڑا کبھی خرم
فقیروں کے اشارے سب فلک تک بھی رواں جائیں
خرم جواد

0
33