جسم اب تار تار باقی ہے
روح بھی داغدار باقی ہے
لٹ لٹا کے چلے ہیں میخانا
دل پہ تھوڑا غبار باقی ہے
کُھل گئے ہیں وہ سامنے آ کر
پھر بھی کچھ اعتبار باقی ہے
سانس لیتے ہیں پر اجازت سے
نام کا اختیار باقی ہے
خاک میں خاک ہو گئے شاہدؔ
اب تو خالی مزار باقی ہے

0
39