بجا کہ تم کو گِلے ہیں شکایتیں ہم سے |
مگر نہ یوں کہ فسانے کہو ملازم سے |
جنابِ آدم و حوّا کی ہی نہیں غلطی |
کوئی تو پوچھتا جا کر کبھی یہ گندم سے |
مرے وطن کا ہر اک آدمی گداگر ہے |
فقیر ترکِ وطن کر رہے ہیں اس غم سے |
طبیبِ عشق نے دیکھا مجھے تو کہنے لگے |
نہیں ہے فائدہ تم کو دوا سے مرہم سے |
الہیٰ میرا لڑکپن تُو مجھ کو لَوٹا دے |
جہاں نہ حرص و ہوس تھی نہ کلفتیں غم سے |
جہاں سے پیدا ہوئے تھے وہیں پہ دفن ہوئے |
زمین مانگ رہی ہے خراج آدم سے |
عوام مر رہے ہیں بھُوک سے گرانی سے |
سریرِ سلطنت اندوزِ لُطف سرگم سے |
کوئی بتائے کہ مَیں کس طرح فسانے کہوں |
بیان ہوتے نہیں زلزلے ترنّم سے |
تو آؤ دوستو پھر آج سے یہ عہد کریں |
مَیں تُم سے دُور رہوں تم جدا رہو ہم سے |
معلومات