یہ رمزِ ہستی سمجھ میں نہ جب تلک آئے
ہو ظرف تنگ تو پیمانہ پھر چھلک آئے
ہوئی ہے خشک زمیں آفتاب جلتا ہے
ہے انتظار لئے ابر اب فلک آئے
یہ کر رہا ہے دلوں پر اثر سبب ہے کیا
ترے سخن میں ترے دل کی اک جھلک آئے
ہم اس لئے بھی نہیں دیکھتے ترا چہرہ
کہ ہم نے دیکھے ہیں موتی سرِ پلک آئے
تمہارا ذکر کبھی اس لئے نہیں کرتا
کہیں نہ آنسُو کوئی آنکھ سے ڈھلک آئے
لُٹا کے اپنوں کی جاں بیٹھے راہ تکتے ہیں
دلاسہ دینے کو شاید کوئی مَلَک آئے

0
16