کاش ہاتھوں کی جگہ پاؤں اچھالے جاتے
پاؤں کٹتے تو مرے پاؤں کے چھالے جاتے
جن پہ احسان کیے وہ ہی فریبی نکلے
اس سے بہتر تھا یہاں سانپ ہی پالے جاتے
اس سے پہلے کہ وہ یہ لفظ چبھوتا دل میں
کانوں میں پگھلے ہوئے سیسے ہی ڈالے جاتے
وہ نظر تھی ہی نہیں کس کو دکھاتے جوہر
سنگ سمجھے گئے پھر کیسے سنبھالے جاتے
وہ تو شیطان کے بہلاوے پہ نکلے شاہدؔ
ہم وہاں سخت سوالوں پہ نکالے جاتے

47