آسماں کو چھوتے ہیں اب دام جو بازار میں
خستہ دامن ہو چلے مہنگائی کی اس مار میں
دل لگی میں ہو اگر چین و سکوں برباد بھی
"بے قراری کا مداوا ہے خیالِ یار میں"
راس قلت ہے نہ کثرت ہے یہاں ہم کو مگر
ہو بے کیفی پر شکارِ اندک و بسیار میں
ملک کی خاطر جو تن من دھن نچھاور کرتے ہیں
کرتے ہیں خود کو فنا وہ ہلکی اک للکار میں
منفی جزبے بھول کر ناصؔر نہ اپنائیں کبھی
سوچ مثبت ہی رکھیں ہم ان گنت انکار میں

0
53