عر
یوں تو پوشیدہ تری ذات ہے پر سرو و سمن
دیں گواہی تری ذرّات بھی اور بھاری بدن
تجھ پہ شاہد ہیں فلک، چاند، ستارے ، سورج
تیری تخلیق زمیں ، دشت و چمن ، کوہ و دمن
آنکھ بینا ہو تو ہر سمت دکھائی تُو دے
شرک سے پاک نظر آتا ہے تیرا دامن
میری خوراک کا ساماں ہے میسّر ان میں
ان کے اندر ہے ذخیرہ جو سمندر اور بن
کیا درختوں میں نہاں آگ نظر آئے کبھی
جیسے نطفے میں ہی پوشیدہ رہے روحِ بدن
زندگی کی بنی بنیاد تو مٹّی ، پانی
خاک کا پتلا ہوا نور سے جگ مگ روشن
ایک نقطے سے کہیں زیست کا آغاز ہوا
نفسِ واحد سے کئے پیدا سبھی مرد اور زن
مرد کے کاندھے پہ ڈالا ہے سنبھالے اس کو
اور تخلیق کا مرکز ہوا عورت کا بطن
پھول رنگینی سے خوشبو سے بلائے اس کو
بیج پھیلائے کوئی بھونرا یہ کرتے ہیں جتن
گھو متا پھرتا ہے اس میں جو ملا اس کو مدار
دائرہ جس کا ہے جتنا وہ اسی میں ہے مگن
جس کو فرصت ہو ذرا غور سے دیکھے اس کو
کیسے مل جاتا چرندوں سے ہے بچوں کو لبن
جلوۂ حسن تو ہر سمت نظر آتا ہے
لحنِ داؤدی جہاں سے ہے وہیں کام و دہن
ان گنت تیرے ہیں احسان نہ ہو ان کا شمار
حمد ہو تیری بیاں کیسے ہے محدود سخن

0
5