تری تصویر کو سینے سے لگا لوں تو چلوں
اپنے ہونے کا یقیں خود کو دلا لوں تو چلوں
کتنی سوکھی ہے ترے درد کی دھرتی دل میں
اپنی آنکھوں سے کوئی بوند گرا لوں تو چلوں
رنج کافی ہیں محبت کی عنایت کے سبب
وہ بھی دھڑکن میں مرے یار بسا لوں تو چلوں
موج پیاسی ہے ترے بحرٕ محبت کی عجب
اشکٕ غم اس کو ذرا آج پلا لوں تو چلوں
شہرٕ جاناں کی کشش کھینچ رہی ہے دل کو
اس کے ہاتھوں سے ذرا دل کو چھڑا لوں تو چلوں
اب خزاؤں نے بھی اس دل کو سلامی بھیجی
اس سلامی کی کرامات سنا لوں تو چلوں
آج آنکھوں نے بہت پیار سے کی ہے خواہش
خاک قدموں کی تری آ کے اٹھا لوں تو چلوں

48