تری تصویر کو سینے سے لگا لوں تو چلوں |
اپنے ہونے کا یقیں خود کو دلا لوں تو چلوں |
کتنی سوکھی ہے ترے درد کی دھرتی دل میں |
اپنی آنکھوں سے کوئی بوند گرا لوں تو چلوں |
رنج کافی ہیں محبت کی عنایت کے سبب |
وہ بھی دھڑکن میں مرے یار بسا لوں تو چلوں |
موج پیاسی ہے ترے بحرٕ محبت کی عجب |
اشکٕ غم اس کو ذرا آج پلا لوں تو چلوں |
شہرٕ جاناں کی کشش کھینچ رہی ہے دل کو |
اس کے ہاتھوں سے ذرا دل کو چھڑا لوں تو چلوں |
اب خزاؤں نے بھی اس دل کو سلامی بھیجی |
اس سلامی کی کرامات سنا لوں تو چلوں |
آج آنکھوں نے بہت پیار سے کی ہے خواہش |
خاک قدموں کی تری آ کے اٹھا لوں تو چلوں |
معلومات